یقین وعدہ نہیں تاب انتظار نہیں کسی طرح بھی دل زار کو قرار نہیں شبوں کو خواب نہیں خواب کو قرار نہیں کلی کلی میں سمائی ہے نکہت سلمیٰ کہاں کہاں نہ ہوئے ماہ رو جدا مجھ سے غموں کی فصل ہمیشہ رہی تر و تازہ بہار آئی ہے ایسے میں تم بھی آ جاؤ کسی کی زلف پریشاں کا سایۂ رقصاں ہے ستارہ وار وہ پہلو میں آ گئے شب کو گل فسردہ بھی اک طرفہ حسن رکھتا ہے ہر ایک جام پہ یہ نغمۂ حزیں ساقی خدا نے بخش دیئے میرے دل کو غم اتنے چمن کی چاندنی راتیں ہیں کس قدر ویراں شریک سوز ہیں پروانے شمع کے اخترؔ |
Poet: Akhter Sherani |
– |